Sunday, July 27, 2008

بے عملی کی انتہاء کہ ہم نے سب کچھ اللہ پر چھوڑ رکھا ہے۔









بے عملی کی انتہاء کہ ہم نے سب کچھ اللہ پر
چھوڑ رکھا ہے


ہمارے ہاں بے عملی کی ایسی انتہاء ہے کہ ہم نے سب کچھ
اللہ پر چھوڑ رکھا ہے۔ اسی بے عملی کے اظہار کے لئے ہماری ہی قوم کے کسی فرد نے
یہ لطیفہ تخلیق کیا ہے۔ آپ بھی پڑھ لیں:



سن 1914ء میں جنگ عظیم اول لگی، جس میں دنیا کی بڑی قومیں ایک دوسرے کے خلاف صف
آراء تھیں۔ اس دوران میں فرشتوں نے اللہ تعالی سے عرض کی کہ انہیں مظلوموں کی
مدد کے لئے اس جنگ میں شرکت کی اجازت دی جائے۔ مگر اللہ تعالی نے انہیں یہ کہتے
ہوئے اہل زمین کی مدد کے لئے جانے سے روک دیا کہ مظلوم قومیں عمل سے عاری نہیں،
جنگ جیسی بھی ہے وہ خود ہی فیصلہ کر لیں گی، تم اپنا کام کرو۔



سن 1939ء میں جنگ عظیم دوم لگی، جس میں دنیا کی بڑی قومیں ایک بار پھر ایک
دوسرے کے خلاف صف آراء تھیں۔ اور پھر وہ دن بھی آ گیا جب جاپان پر ایٹم بم
برساتے ہوئے لاکھوں کی آبادی کو موت کی نیند سلایا جانا تھا۔ اس دوران میں
فرشتوں نے پھر اللہ تعالی سے عرض کی کہ انہیں مظلوموں کی مدد کے لئے اس جنگ میں
شرکت کی اجازت دی جائے، کیونکہ یہ اس دنیا کی پہلی ایٹمی جنگ تھی۔ مگر حسب
معمول اللہ تعالی نے انہیں یہ کہتے ہوئے اہل زمین کی مدد کے لئے جانے سے روک
دیا کہ اس بار بھی مظلوم قومیں عمل سے عاری نہیں، جنگ جیسی بھی خطرناک صورت
اختیار کر لے، وہ خود ہی فیصلہ کر لیں گی، تم اپنا کام کرو۔



سن 1965ء میں جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو فرشتے ابھی اس خبر سے بھی بے
خبر تھے کہ اللہ تعالی نے ہنگامی میٹنگ بلائی اور فرشتوں کو حکم دیا کہ فوراً
پاکستانیوں کی مدد کو پہنچو۔ فرشتے حیران ہوئے اور بولے کہ اے اللہ اس زمین پر
دو عالمی جنگیں ایسی گزر چکی ہیں جن میں تو نے ہمیں اہل زمین کی مدد کو نہیں
جانے دیا۔ اب اس میں کیا حمکت ہے کہ اتنی چھوٹی سی جنگ میں ہمیں بھیج رہا ہے؟



اللہ تعالی نے کہا کہ اس جنگ میں پاکستان مظلوم ہے اور یہ وہ قوم ہے جس نے سب
کچھ مجھ پر چھوڑ رکھا ہے۔

حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے کم و بیش ایک
صدی قبل اسی بے عملی و بے حسی بارے فرمایا تھا:

 

کیا یہی ہے معاشرت کا کمال؟

مرد بے کار و زن تہی آغوش



اور ہم ہیں کہ ایک صدی گزرنے کے باوجود اپنا قومی وطیرہ تبدیل کرنے پر قائل
نہیں ہو سکے۔

انا للہ و انا الیہ راجعون